Prof. Malikzada Manzoor Ahmad delivering the lecture. People on the dais (from the left): the Chief Guest - acclaimed Urdu NovelistPadmashri Prof. Qazi Abdul Sattar, Urdu short-story writer Dr. Sabiha Anwar and Urdu poet Salma Hejab

 Prof. Malikzada Manzoor Ahmad

 NAZR E PROF.MALIKZADA MANZOOR AHMAD

DR.AHMAD ALI BARQI AZMI

HAI MALIKZADA KI WEBSITE NEHAYAT DILNASHEEN
UN KE IS ARZ E HUNAR PAR AAFREEN SAD AAFREEN

UN KE RASHAAT E QALAM HAIN FIKR O FUN KA SHAHKAAR
KARTE HAIN HAMWAAR JO FIKRI TANAZUR KI ZAMEEN

UN KI URDU SHAIRI HAI MARJAH E AHL E NAZAR
HAI NEZAMAT UN KI AQSA E JAHAAN MEIN KHUSHTAREEN

HAAL HI MEIN LAUT KAR AAYE HAIN AMRICA SE WOH
HAR JAGAH MADDAH HAIN UN KE ADAB KE SHAEQEEN

SHAKHSIYAT PAR UN KI ARBAAB E NAZAR KO NAAZ HAI
UN KE NAZM O NASR MEIN HAIN KARNAME BEHTAREEN

ASR E HAZIR MEIN HAIN WOH URDU ADAB KE EK SAFEER
KOII MANE YA NA MANE HAI MUJHE IS KA YAQEEN

RAUNAQ E BAZM E ADAB HAI UN KA ME'AARI KALAM
UN KE GIRVEEDAH HAIN BARQI SAME'EEN O NAZEREEN

Shahar-e-Sukhan is Dr Malikzada Manzoor Ahmad’s interesting account of the poets who ruled the Mushairas half-a-century ago. Separate chapters on 26 major poets including the likes of Salam Machhlishahri, Fana Nizami Kanpuri, Ravish Siddiqui, Masood Akhtar Jamal, Allama Anwar Sabri, Mirza Ahsan Ahmad Beg, Hindi Gorakhpuri and Salam Sandelvi.

Chapters on poets like Jigar Muradabadi, Nushoor Vahidi, Khumar Barabankvi, Rahi Masoom Raza and Arif Abbasi Baliyavi are also part of this book. It was first published in 1961 and the entire edition had sold out immediately after publication. In 1961, all the poets described in the book were alive.

Now when the book has been re-printed half-a-century later, only two–Malikzada Manzoor Ahmed himself and Natiq Aazmi are alive. Allama Niaz Fatehpuri had lauded the book wholeheartedly, specially Malikzada’s style of description of poets. The book is interspersed with anecdotes and the interesting incidents during Mushairas, that make it a must for any library.

“I asked Fana Nizami Kanpuri, why he never sent his poetry for publication in magazines and literary journals”. He said that once he sent his ghazal and the editor replied that, ‘Ghazal mil gayi hai mutmain rahiye‘ and I stopped sending my poetry to periodicals thereafter. ‘What was so objectionable in his reply?, asked Malikzada. Fana Sahab said, ‘You may not feel it anything in it but it is an affront to a poet, after all when he had received the ghazal he should have been mutmain, rather he asked me to do the same”.

You can order it from Seemant Nagar, Kanchan Bihari Marg, Kalyanpur (Lucknow) for Rs 200.

 

 


 

رقص شرر - خود نوشت
ندیم صدیقی
اردو بک ریویو دہلی

رقصِ شرر ''خود نوشت''
مصنف: ملک زادہ منظور احمد    تبصرہ: ندیم صدیقی
         عمر کے 76 ویں پائیدان پر قدم رنجہ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد کی آنکھوں نے نصف صدی سے زائد مدت تک جو کچھ دیکھا اسے بہت سے صاحب بصارت نہیں دیکھ پاتے، اس میں ان 'ملک زادہ' کی صرف بصارت کو ہی نہیں بصیرت کو بھی دخل ہے۔ بصارت اور بصیرت کے اس اتصال نے موصوف کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں پہنچنے کی کوشش میں لوگ عمر تمام پر پہنچ جاتے ہیں مگر ان کا مطلوب ہنوز ان سے دور ہوتا ہے۔ کچھ خوش بخت ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس ان کی طلبیدہ خود پہنچ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد ان ہی خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں۔
         ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد اردو دنیا میں ایک مشہور نام ہے۔ وہ شاعر تو ہیں مگر ان کے اس وصف پر ایک دوسری صفت غالب ہے جسے مشاعرے کی نظامت کہتے ہیں۔ وہ اس حوالے سے دنیا جہاں میں معروف ہیں بلکہ مقبول ہیں نیز یہ بھی کہدیا جائے تو ہر گز غلط نہیں کہ انہوں نے اس کام کو اپنے علم اور ذہانت سے ایک پروقار فن بنادیا ہے۔ وہ اسی حوالے سے دنیا بھر میں بلائے گئے اور عزت، محبوبیت بلکہ دولت نے بھی ان کے قدم چومے۔
         ہمارے پیش نظر جو کتاب ہے وہ اسی شخصِ محترم و مکرم کی خود نوشت سوانح حیات ہے جس میں زندگی کے مختلف رنگ اپنی شناخت کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے نہ صرف اپنی رودادِ حیات رقم کی ہے بلکہ دنیا جہاں کے نقش ونگار بھی اپنی جزئیات کے ساتھ اس میں جگمگا رہے ہیں اور وہ شخصیات بھی زندہ ہوگئی ہیں جو کسی زمانے میں مشہور بھی تھیں اور مقبول بھی مگر افسوس اور جائے عبرت ہے کہ آج ان کے نام سے بھی اکثر لوگ ناواقف ہیں۔ ان میں شاعر و ادیب ہی نہیں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد بھی ہیں۔
         ''رقصِ شرر'' کے پڑھنے والے کے ذہن پر تمام کمال و جمال کے ساتھ ملک زادہ منظور احمد کی پوری شخصیت کی چھوٹ پڑرہی ہے۔ اس میں درج بہت سارے واقعات تاریخ ہیں یا نہیں مگر تاریخ کی ترتیب میں ممد و معاون ضرور ثابت ہوں گے۔ جس میں دور گزشتہ کا ہی تذکرہ نہیں بلکہ عصر جدید کی روداد روزِ آئندہ کے قاری کو بھی مستفید کرے گی۔ یہ کتاب اردو کے سوانحی شعبے میں ایک اضافہ ہے۔ اس کے اقتباسات وقتا فوقتا دہرائے جائیں گے مگر ادا جعفری کی سوانحی سرگزشت ''جو رہی سو بے خبری رہی '' کی پذیرائی کی تقریب میں جمیل الدین عالی نے ایک بات کہی تھی جو اس کتاب کو پڑھتے وقت بار بار یاد آئی کہ ''ہمیں کسی کی سرگزشت، سوانح یا کوئی کتاب پڑھتے وقت یہ ضرور دیکھنا چاہیئے کہ اس میں مصنف نے ادب کو کیا دیا یا اس میں ادب کتنا ہے؟ اس نقطہ نگاہ سے اس کتاب پر جب نظر ڈالی جائے گی تو انشاءاللہ قاری ہرگز مایوس نہ ہوگا۔ اس میں زبان و بیان کی دلکشی بھی ہے اور معنی آفرینی بھی جو اس دور کے اکثر لکھنے والوں میں کمیاب ہے۔
         ''رقص شرر'' میں مختلف واقعات اور بہت سی مشہور شخصیات کا تذکرہ ہی بلکہ بعض ایسے افراد کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو نہ تو شاعر و ادیب ہیں اور نہ ہی کسی اور طرح سے ان کی کوئی حیثیت ہے لیکن ملک زادہ منظور احمد کے بیان نے انہیں ایک تشخص عطا کردیا ہے۔ یہ کمال فن ہے کہ ان کے مشاہدے اور حافظے میں جو کچھ تھا وہ سلیقے سے مضمون کی شکل اختیار کرگیا ہے جس میں تاثر بھی ہے اور تاثیر بھی جس کے سبب یہ کتاب ضخامت کے باوجود اس مصروف ترین دور میں بھی اپنے آپ کو پڑھوا لیتی ہے جو ہمارے نزدیک کتاب کی ایک نمایاں کامیابی ہے۔ اس کتاب میں ایک انگریز 'جم کپن' کا ذکر کیا گیا ہے جو لکھنو صرف اس وجہ سے آیا تھا کہ وہ لکھنو کے طبلہ بجانے والوں کی سماجی اور اقتصادی صورت حال پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھ سکے۔ اس کی روداد اور قبول اسلام کی داستان اور اس کا ''قبول اسلام سے قبل'' اخلاق دل کو چھوتا محسوس ہوا۔ ایک تو یہی کہ 'طبلہ نوازوں' کی سماجی و اقتصادی صورت حال پر اس کا پی ایچ ڈی کرنا دوسرے اس کام کے لئے انگلینڈ سے لکھنو تک کا سفر کرنا ہم ہندوستانیوں کے لئے یقینا ایک حیرت اور استعجاب کی بات ہے کہ ہم اتنی مشکل میں کہاں پڑتے ہیں۔
         ہم اسی 'جم کپن' کے حوالے سے اس کتاب سے ایک دلچسپ اقتباس پیش کرتے ہیں کہ اس میں کئی باتیں ہمارے لئے کسی سبق سے کم نہیں۔
         ''میں نے اس کہا کہ رہائش کا مسلہ فوری طور پر اسی طرح حل ہوسکتا ہے کہ تم دوچار دن ہمارے ہاں قیام کرو اور جب کوئی مناسب انتظام ہوجائے تو چلے جاو۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے کیا دینا ہوگا؟ میں نے جب اس کو بتایا کہ ہم مہمانوں سے کوئی رقم نہیں لیتے تو اس کو بے حد تعجب ہوا۔ چنانچہ میں اس کو اپنے گھر لایا۔ گھر چھوٹا تھا اس لئے ڈرائنگ روم میں ہی اس کے سونے اور رکنے کا انتظام کردیا۔ دوسری صبح جب وہ سو کر اٹھا تو اس نے میری بیوی سے باورچی خانے میں جاکر پوچھا کہ میں کھانا پکانے میں آپ کی کیسے مدد کرسکتا ہوں، لائیے میں برتن صاف کردوں۔ میری بیوی نے اسے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں مردوں سے نہ تو کھانا پکوایا جاتا ہے اور نہ ہی برتن صاف کروایا جاتا ہے، تو وہ حیرت و استعجاب سے سب کامنہ دیکھنے لگا۔ وہ ٹوٹی پھوٹی اردو بول لیتا تھا اور چاہتا تھا کہ گھر کے لوگ اس سے اردو میں ہی بات کریں۔ میں نے جب بھی انگریزی میں بات کی تو اس نے اصرار کے ساتھ اردو بولنے کے لئے کہا۔''
         ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد کی یہ کتاب بظاہر ایک شخص کی روداد ہے مگر اس میں دنیا، ایک جہان سمایا ہوا ہے۔ کتاب کے اسی تنوع نے اسے مزید دلچسپ بنایا ہے۔ اسی کے ساتھ ملک زادہ کی زبان و بیان کی شیرینی نے اس کے حسن کو دو چند کردیا ہے۔ ''شبِ زفاف''، ''تملق'' اور ''درک'' جیسے الفاظ اس کتاب میں پڑھ کر اسلافِ ادیب یاد آئے اور بیساختہ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد کے لئے دعائیہ کلمات زبان پر تھے کہ اللہ ان کو صحت کے ساتھ عمر دراز دے۔ مگر اسی کے ساتھ ساتھ بعض مقامات پر یہ محسوس ہوا کہ کتاب کے مسودے پر ڈاکٹر موصوف نظرِ ثانی نہیں کرسکے۔ مثلا ''دن بہ دن'' اور واپس لوٹے'' جیسے الفاظ اس میں کئی جگہ اپنی معنوی تکرار کے ساتھ ہمیں منہ چڑا رہے ہیں، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد واپس ہونے یا لوٹنے کے معنی یا دن بہ دن اور روز بہ روز میں صحیح غلط سے نابلد ہیں بلکہ یہ وہ سہو ہے جو ہمارے اکثر اہل قلم سے سرزد ہوتا رہتا ہے، مگر غلطی تو غلطی ہے خواہ وہ کسی سے بھی ہو۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہ لیا جائے کہ مبصر کسی کے علم کو چیلنج کررہا ہے، دراصل ہمارے ہاں بہت ساری غلطیاں یوں بھی رواج پاگئی ہیں کہ لوگ نظر انداز کردیتے ہیں کہ ''کون ٹوکے'' مگر ہم جیسے لوگ چھوٹے سے چھوٹے لفظ کی حرمت کو بھی پامال نہیں دیکھنا چاہتے، اگر یہ جرم ہے تو ہم اس جرم کا اقبال و احترام کرتے ہیں اور اس شعر کے ساتھ ''رقصِ شرر'' کے تعارف کو تمام کرتے ہیں۔
''ذرا سنبھال کے لفظوں کو جوڑیئے صاحب
کہ اس مکان میں اک عمر تک رہے گا کوئی''
سہ ماہی اردو بک ریویو، اپریل مئی جون2008

 Prof. Malikzada Manzoor Ahmad

. He has recited poems at thousands of mushairas (Urdu poetry recitations) and kavi-sammelans (Hindi poetry recitations) since 1949, in a number of countries other than India, viz., the USA, Canada, the UAE, Bahrain, Oman, Saudi Arabia, Qatar, Iran, Nepal and Pakistan. He is the editor of Imkan (Monthly Urdu literary journal from Lucknow) and President, All India Urdu Rabita Committee. He is also the former president of, Fakhruddin Ali Ahmad Memorial Committee, Lucknow, Uttar Pradesh Urdu Academy. He retired as Professor, Department of Urdu, University of Lucknow. His books include College Girl, 1954 (Novel), Urdu ka Mas’laa, 1957 (Monograph), Shahr-e-Sukhan, 1961 (Poetry), Abul Kalam Azad: Fikr-o-Fan, 1964, Abul Kalam Azad Al-Hilal ke Aaine Mein, Ghubaar-e-Khaatir ka Tanqeedi Mut’aalaa, Shahr-e-Sitam (Poetry), Raqs-e-Sharar, 2004 (Autobiography), Intikhaab Ghazaliyaat Nazeer Akbarabadi He has written preface of more than 200 books. Awards received by him include UP Urdu Academy Award for Lifetime Contribution to Urdu Literature, Award for the promotion of Urdu language, MP Urdu Academy Award for Lifetime Contribution, Imtiaz-e-Mir  and Iftikhar-e-Mir  from the All India Mir Academy, Honour from the Khuda Baksh Library, Patna, Maekash Akbarabadi Award, Harivansh Rai Bachchan Award, Sufi Jamal Akhtar Award, Firaq Samman from the Aalami Urdu Conference, New Delhi, Momin Khan Momin Ghazal, Faqr-e-Urdu Award from the Osmania University Ex-Students’ Association of Greater Chicago, Title of Sahitya Saraswat by Hindi Sammelan, Prayag

Welcome to our site

Mushaira Malikzada Manzoor - Ghazal

 

 

This free website was made using Yola.

No HTML skills required. Build your website in minutes.

Go to www.yola.com and sign up today!

Make a free website with Yola